افغان تجزیہ کار اور سینئر صحافی سمیع یوسف زئی سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی طالبان پر امریکہ کا فوجی دباؤ ہٹا ہے افغانستان کا دفاعی نظام بکھر چکا ہے۔ ان کے خیال میں اگلے دو تین ہفتوں میں طالبان کابل کے دروازے پر ہوں گے اور انہیں روکنا خاصا مشکل ہو گا۔ ’اب تک افغان افواج کا زیادہ زور کابل کو بچانے پر ہے اور یہاں پر فوجی قوت اور کمانڈوز کو اکھٹا کیا جا رہا ہے تاہم ایک طرف طالبان کا مورال بلند ہے تو افغان افواج کا مورال ڈاون لگ رہا ہے اور شاید تین ہفتوں تک یہ نظام (افغان حکومت ) قائم نہ رہ سکے۔ اس سوال پر کہ کابل حکومت کے لیے کسی بیرونی مدد کا کوئی امکان ہے سمیع یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اب ایسا ممکن نہیں لگتا بلکہ یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے بھی ذہن بنا لیا ہے۔ طالبان نے بھی ذہن بنا لیا ہے اور پاکستان نے بھی ذہن بنا لیا ہے کہ کابل کا ملٹری ٹیک اوور ہی ہو گا۔ تاہم اس کے بعد کیا کرنا ہے اس کے لیے طالبان کے پاس کوئی جامع پلان نہیں ہے۔
تاہم ماییکل کوگلمین سمجھتے ہیں کہ طالبان کے قابل پر فوری قبضے کا امکان نہیں ہے کیونکہ افغانستان افواج کے طاقتور ترین دستے دارالحکومت میں تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ اگر افغان حکومت کیس طرح افواج کا مورال بلند کر سکے اور انہیں اچھے وسائل مہیا کر سکے تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ طالبان نے زیادہ علاقوں پر قبضہ اس لیے بھی کیا کہ افغان فوجی لڑنے کی خواہش نہیں رکھتے ورنہ انہیں میدان میں شکست نہیں ہوئی۔ کابل کے لیے ضروری ہے کہ حالات کا دھارا بدلے۔ تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق یہ ابھی لمبی جنگ ہے طالبان کی کامیابیوں کے باجود ابھی تک قندھار، ہرات اور کابل جیسے بڑے شہروں پر افغان حکومت کا قبضہ ہے اور شاید حکومت کی حکمت عملی بھی یہی ہے کہ اہم اور بڑے شہروں کو بچایا جائے۔
وسیم عباسی
بشکریہ اردو نیوز
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments