News

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.

Visit their website at: https://dusp.org/

Thank you,

منافقت کی گود میں پلتی جوانیاں

مائیں خالی کمروں میں چکر کاٹ رہی ہیں۔ بہنیں سپاٹ آنکھوں سے آسمان کو تک رہی ہیں۔ سہاگنیں کواڑوں سے لگی کھڑی ہیں۔ باپ چوکی پر گم صم بیٹھے ہیں۔ نو خیز نوجوان سڑکوں پر تماشا بنے ہوئے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے 74 سال کی کاشت کا حاصل دیکھ کر بانیانِ پاکستان کی تصویریں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے۔ امریکہ کسی بھی ملک کو مہذب بنانے کا فارمولہ لڑکیوں کی درسگاہیں کھولنا سمجھتا ہے اور 20 سال بعد بے آبرو ہو کر نکلتا ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں نوجوانوں کے غیر اخلاقی لغو مظاہرے دیکھ کر یہاں بھی فارمولہ تنقید ہوتی ہے۔ مذہبی حلقے کہتے ہیں نئی نسل کتاب و سنت سے دور ہو گئی ہے۔ این جی اوز پلے کارڈ لے کر نکل آتی ہیں۔ احتجاج، ایف آئی آر اور پھر چند روز بعد خاموشی۔ معاملے کی تہہ تک کوئی پہنچنا نہیں چاہتا۔ سانچے ڈھلے ڈھلائے ہیں، وہ منطبق کر دیے جاتے ہیں۔ مینار پاکستان ہو۔ کراچی کی شارع فیصل۔ کسی قصبے کا کوئی بازار۔ پاکستان کی عمر کے لحاظ سے 60 فی صد آبادی جواں سال تو ہے۔ مگر اس کی کوئی منزل نہیں ہے۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہے۔ والدین کو بھی یہ احساس نہیں ہے۔ نہ ہی اساتذہ کو نہ ہی رہنمائوں کو۔

یہ بیماری ہے۔ اس کی تشخیص بھی بیماری کے طور پر ہونی چاہئے۔ معاشرے میں مذہب سے دوری نہیں ہے۔ پہلے سے زیادہ لوگ باریش ہیں۔ حجاب بھی پہلے سے کہیں زیادہ۔ مختلف مسالک کے تبلیغی اجتماعات میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں۔خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیمیں بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ عورتوں کے لئے قوانین بھی بہت بن چکے۔ مباحثے پہلے سے زیادہ ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آزادیٔ اظہار کے ریلے بہہ رہے ہیں۔ لیکن یہ طے نہیں کہ ہماری منزل کیا ہے؟ اس لئے ہماری بحثیں بے نتیجہ ، کاوشیں بے مقصد رہتی ہیں۔ 75ویں سال میں بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ پاکستان کیوں بنا تھا۔ 1947 سے پہلے تحریک پاکستان کے مخالفین اب یہ انکشاف کر رہے ہیں کہ نظریۂ پاکستان کیا ہے۔ ہم ابھی تک اپنا معاشرہ تشکیل نہیں دے پائے۔ ہم ایک زیر تعمیر قوم ہیں۔ سیاسی حکومتیں آئیں۔ فوجی آمریتیں بھی دیکھیں۔ اب ٹیکنالوجی کا دَور آگیا ہے۔ تہذیبوں کا تصادم ہو رہا ہے۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ہے مگر روایتی خیالات۔ قبائلی رسوم و رواج۔ برادریاں اسی طرح ہیں بلکہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سے ذات پات اور برادری کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے۔ 

پہلے صرف نام کی نمائش ہوتی تھی۔ اب لکھنے والے۔ اداکار۔ تجزیہ کار۔ اکثر اپنی ذات کا لاحقہ بھی نمایاں کرتے ہیں۔ ہر شعبہ متنازع ہے۔ نظام تعلیم۔ قوانین۔ عدالتوں کے فیصلے۔ ہر زندہ اور مرحوم لیڈر پر الزامات ہیں۔ ہماری 74 سالہ تاریخ میں ایک دو رہنمائوں کے علاوہ کسی نے دلوں کو ولولۂ تازہ نہیں دیا۔ ہمارے نومولود منافقت کے زچہ خانوں میں آنکھیں کھولتے ہیں ۔ تذبذب کی گود میں پلتے ہیں۔ بے یقینی میں ہوش سنبھالتے ہیں۔ بد گمانی میں تربیت حاصل کرتے ہیں۔ تہمت اور الزامات پر مشتمل زبان سیکھتے ہیں۔ ایسے تضادات میں سانس لینے والا ذہن تندرست کیسے ہو سکتا ہے؟ نسل در نسل ہمارے نو عمر اپنے بزرگوں کو اپنے مذہب۔ اپنے آدرش۔ اپنے وطن سے بے وفائی کرتے دیکھتے ہیں۔ دعویٰ محمدؐ کی غلامی کا کرتے ہیں۔ لیکن زمین کے خدائوں سے ڈرتے ہیں۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں لیکن امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے سفارت خانوں کے باہر ترکِ وطن کے کاغذات لئے قطار اندر قطار کھڑے ہوتے ہیں۔

چوہتر سال میں ہم اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں میں یہ اعتماد پیدا نہیں کر سکے کہ وہ اپنے ملک میں محفوظ ہیں۔ ترانوں نغموں میں تقریروں میں کہا جاتا ہے کہ ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ مگر یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ ایک پاکستانی ہوتا کیا ہے۔ مثالی پاکستانی کون ہو سکتا ہے جو ہماری قیادت کے دعویدار ہیں، خاکی یا سادہ، وہ کرپٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ سرکاری محکموں میں کوئی فائل سفارش یا رشوت کے بغیر قدم نہیں اٹھاتی۔ اس لئے سرکار سے تعاون نہیں ہوتا ہے۔ اس کے اعلانات قواعد و ضوابط کو تسلیم کرنے کا تمدن نہیں ہے۔  اشرافیہ دولت میں کھیل رہی ہے۔ کئی کئی کروڑ کی گاڑیوں میں گھومتی ہے۔ عام آدمی چند لاکھ کے گھر کے لئے ترستا ہے۔ 60 فیصد آبادی نوجوان ہے۔ مجھ سمیت سارے بقراط اسے ملک کے لئے نعمت قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ 60 فیصد کن حالات میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کو جنم دینے والی مائیں کتنی اذیتیں سہتی ہیں۔ یہ کیسی گلیوں میں پلتے ہیں۔ ان کی امیدیں، تمنّائیں کیسے قدم قدم پر روندی جاتی ہیں۔ کہیں دولت کے بل پر۔ کہیں ہتھیاروں کے دم پر۔

یہ کوئی نہیں لکھتا۔ یہ تضادات، رجحانات، عقائد، شہروں، قصبوں، دیہات میں نوجوانوں سے سلوک ان کے ذہن میں کیسے تصورات اور تاثرات کو جنم دیتا ہے۔ عمران خان نوجوانوں کے ووٹ سے کامیاب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن بر سر اقتدار آکر نوجوانوں کو کسی مشن پر لگانے کے لئے، مصروف رکھنے کے لئے۔ ہر دم محو سفر رکھنے کے لئے کونسی منزل کا تعین کیا ہے ؟ نوجوانِ مسجدوں میں خطبے سنتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے جلسے میں شریک ہوتے ہیں۔ ٹریننگ سے لاکھوں روپے کمانے والوں کی ورکشاپس میں جاتے ہیں۔ ٹاک شوز دیکھتے ہیں۔ ہم بھٹکے ہوئوں کے کالم پڑھتے ہیں۔ چینلوں کے ڈرامے دیکھتے ہیں۔ یو ٹیوب چینل۔ ویب سائٹ ٹی وی۔ کئی کئی سو صفحوں کے زنانہ ناول پڑھتے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی سمت نہیں بتاتا۔ وہ دوراہوں چوراہوں پر پریشان کھڑے ہیں۔ ان کو کوئی ولولہ دیں۔ نظریہ دیں۔ کوئی مشن دیں۔ ان کے پاس وقت ہے۔ توانائی ہے۔ آرزوئیں ہیں۔ امنگیں ہیں۔ انہیں کوئی ہدف دیں۔ نوجوانوں سے مراد صرف بیٹے نہیں۔ بیٹیاں بھی ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کے ذمہ دار صرف وہ نہیں ہیں جن کے چہرے ڈھانپ کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ ہم سب اس کے جواب دہ ہیں؟

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments