News

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.

Visit their website at: https://dusp.org/

Thank you,

قرضوں میں ڈوبا پاکستان

بالآخر ہمارے مجموعی قرضوں نے ہماری معیشت کے اندر سرطان کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ جتنے ہمارے ٹیکسز جمع ہوتے ہیں لگ بھگ اس کے برابر ہم قرضوں کی قسطیں و سود ہر سال ادا کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس اب کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ ٹیکسز بڑھائے۔ اگر ٹیکسز بڑھائیں تو کون سے بڑھائیں؟ حکومت کے پاس ٹیکسز حاصل کرنے کے لیے فعال ادارہ نہیں ہے۔ اور جو براہ راست ٹیکسز نہیں دینا چاہتے ان کی اکثریت ہمارے شرفا ہیں۔ ہماری ریاست آئین میں تو فلاحی ریاست ہے مگر ستر سال کی اس تاریخ میں آئینی حکمرانی رہی کتنی ہے؟ آئین معرض وجود میں آیا کب ؟ اس تسلسل اور سیاسی عدم توازن نے اداروں کو مضبوط ہونے نہ دیا۔ ایسے شرفا کے بادل چھائے جو اسی طرح سے پھلے پھولے جس طرح انگریزوں نے راجوں اور مہاراجائوں پر مشتمل’’ شرفا‘‘ کی فوج بنائی تھی۔

ہمارے پاس پیروں، سرداروں، وڈیروں اور گماشتہ سرمایہ داروں پر مبنی شرفا بنی جو ابھی تک آزاد ہے اور ووٹ کے تصور کو پروان چڑھنے نہیں دیتی۔ یہاں قومی سرمایہ دار کا تصور ابھر نہ سکا ، ٹیکسز جو ان ڈائریکٹ لگتے ہیں، ہمیشہ یہ حکمران لگاتے رہتے ہیں۔ پٹرول کی اس بار جو قیمت بڑھی اس کی قیمت کم پٹرول لیوی زیادہ تھی۔ المیہ ہے کہ شرفا میرٹ سے شرفا نہیں بنے۔ یہ شرفا وہی بانسری بجاتے ہیں جو وقت کی ضرورت ہو۔ ان شرفا کی ماہیت جدا مضمون مانگتی ہے۔ جو پھر کبھی سہی۔ بائیس بیس کروڑ کے اس ملک میں اب کی بار جو سب سے بڑا خرچہ ہونے جارہا ہے جس نے 2018 سے اپنی صورت بنائی ہے، جس کا ذکر میں اپنے پچھلے مضامین میں کرتا رہا ہوں کہ چینی، گندم کپاس وغیرہ اب امپورٹ ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ خوراک میں خود کفیل نہ ہونے کی وجہ سے منگوانا پڑتا ہے، بہت تیزی سے ان اشیاء کی امپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جس سے ہمارے زر مبادلا پر پریشر بڑھتا جا رہا ہے، یہ پریشر ہمیں ڈالر میں قرضے لینے پہ مجبور کرتا ہے۔ ان تین سالوں میں ایسے قرضے لینے میں ہم نے سب کا ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ افراط زر کے بڑھتے ہوئے پریشر کا اس مرتبہ دو سال کے بعد بالآخر اسٹیٹ بینک نے ادراک کیا، اپنی مانیٹری پالیسی میں تبدیلی لا کے نوٹس لیتے ہوئے سود کی شرح میں اضافہ کیا ہے ۔ جس سے افراط زر پر تدریجی حوالے سے قابو پایا جاسکتا ہے مگر ساتھ ہی اس سے شرح نمو پر بھی منفی اثر پڑتے ہیں۔ یہ سارا خمیازا عدم توازن کا باعث ہے، چاہے وہ بیلینس آف پیمنٹ میں ہو، ایکسپورٹ کم اور امپورٹ زیادہ کی وجہ سے ہوا، اخراجات زیادہ اور ٹیکسز کی مد میں کم آمدنی کی وجہ سے ہو یا غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافی کی وجہ اس کے اسباب ہوں، بلا آخر مہنگائی اور ڈالر کی نسبت روپے کے سستے ہونے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔

ہمارے ماہر معیشت حفیظ پاشا کے بقول اب صرف خسارہ ہی خسارہ ہے۔ حکومت تو قرضوں پر چل رہی ہے جب کہ ڈر اس بات کا ہے کہ جو ترقیاتی کاموں کی مد میں بجٹ میں پیسے رکھتے ہیں، کہیں وہ ہی نہ بالکل بند کرنے پڑ جائیں جس کی طرف کچھ دنوں پہلے خان صاحب نے اپنی تقریر میں اشارہ بھی دیا تھا، اور خدانخواستہ کہیں ہمارے دفاعی خرچہ بھی قرضوں سے پورا نہ کرنا پڑے۔ اس وقت قومی قیادت کی ضرورت ہے جو یہاں پھل پھول نہیں سکی۔ جو شرفا ہیں وہ یہی ہیں جن کو الیکشن کمیشن نے نوٹس دیا ہوا ہے ۔ ہم اس صورتحال میں شفاف انتخابات کرانے کے چکر میں نہیں ہیں۔ ہر پانچ سال میں ہمارا مجموعی قرضہ پانچ ہزار ارب روپے بڑھتا رہے گا۔ خان صاحب نے یہ کام تین سال میں کر کے دکھایا جو کام نواز شریف ، نہ زرداری اور نہ مشرف کر پائے۔ اور اب جو آئے سو آئے مگر قرضے کم نہ ہوں گے۔ 

قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگتے رہیں گے جس کا براہ راست تعلق مہنگائی سے ہے اور غریب غریب تر ہوتے رہیں گے۔ نہ ہم ان کو اسکول دے سکتے ہیں نہ اسپتال، نہ صاف پانی۔ ہم نے اپنے غریبوں کے غربت سے نجات کے سب راستے بند کر دیے ہیں اور مڈل کلاس کے لیے غربت میں دھکیلے جانے کے لیے سب راستے کھول دیے ہیں۔ میں یہ بحث بار بار کرتا رہوںگا کیونکہ ہم ساؤتھ ایشیا میں بنگلا دیش، ہندوستان سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگرچہ ہم نے ایک ساتھ آزادی پائی ۔ بنگلا دیش تو ہماری کوکھ سے بنا، وہ جو غربت میں پھنسے ہوئے تھے، کتنا غریب تر تھا مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کی نسبت!!تاہم یہ بہت اچھی خبر ہے کہ ایک طرف ہماری معیشت خان صاحب کے تین سالوں میں پہلی بار چار فیصد شرح نمو کے حوالے سے اس مالی سال میں بڑھے گی۔ مگر یہ بھی حیران کن حقیقت ہے کے بے روزگاری کے حوالے سے جو خود حکومت کے انڈیکیٹر ہیں بتا رہے ہیں کہ اس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک طرف سیاسی بحران، دوسری طرف معاشی بحران تیسری طرف افغانستان کا بحران جس نے دنیا کی نظروں میں ان کے ساتھ ہمیں ایک کر دیا ہے۔ یورپی یونین کی دھمکی جس سے ہماری ایکسپورٹ کو دھچکا لگنے کا خدشہ ہے۔ اس صورتحال میں پی ڈی ایم، نواز شریف اور مریم نواز وغیرہ وغیرہ دوبارہ اس وکٹ پر کھیلنے کے لیے تیار ہیں جو گوجرانوالہ کے پی ڈی ایم والے پہلے جلسے میں تحریک کے آغاز کے وقت کھیلا گیا تھا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو حکومت پر تو تنقید کرتے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ سے مراسم بھی بڑھا رہے ہیں ، شاید شہباز شریف سے بھی زیادہ ۔ کہیں بلاول کہیں وہی کام تو نہیں کر رہے جو بھٹو نے کیا تھا جب اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور شیخ مجیب میں جھگڑا بڑھ گیا تھا اور یہ جھگڑا پیپلز پارٹی اور بھٹو کے لیے ایک سنہری موقع بھی تھا۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نہیں ہے۔ بس ایک آئینہ ہے جس میں آپ اپنی شکل دیکھ سکتے ہیں، کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر آپ چاہیں تو!!!

ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی اسٹرکچرل ایڈجسمنٹ ناگزیر ہو چکی ہے۔ وہ سیاسی ہو یا معاشی ہو یا خود خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہو، ہمیں اپنے ادارے مضبوط کرنے ہیں، الیکشن کمیشن سے ٹکر لے کے اسے بھی تباہ نہ کریں۔ مودی نے ہندوستان کو تباہ کر دیا مگر ان کا الیکشن کمیشن خود اپنے ٹانگوں پہ کھڑا ہوا آزاد ادارہ ہے۔ ان ستر سالوں کی مسلسل جمہوریت نے ہندوستان کے اداروں کو اتنا مضبوط کیا ہے کہ مودی کا ایک جھٹکا ان کو نقصان تو نہیں پہنچا سکتا ہاں مگر ہمارے پاس ادارے اب بھی آزاد حیثیت نہیں پکڑ سکے۔ یہ ملک ہائبرڈ جمہوریت سے بالکل ہی نہیں چل سکتا ۔ اسے یا تو دنیا کے مروج دستور پے چلنا ہو گا یا پھر ایک اور ایران، عراق یا لیبیا بننا ہو گا۔ ہم ایران، عراق یا لیبیا بھی نہیں بنا سکتے کہ خود ان آمریتوں کے پاس تیل کے لامحدود ذخائر تھے۔ اور اتنی بڑی آبادی بھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ فیڈریشن تھے۔ 

ہم نے جب 1971 میں زبردستی کرنے کی کوشش کی، دشمن نے فائدہ اٹھایا اور ہماری فیڈریشن ٹوٹ گئی۔ تب جا کے ہم نے آئین دیا اور اس آئین میں اس تاریخی فیڈریشن کو مانا، اور اٹھارویں ترمیم میں اسے اور مستحکم کیا۔ آیندہ پانچ سالوں میں ہمارے قرضوں کا حجم پچاس ہزار ارب سے تجاوز کر جائیگا۔ ہمارا سی پیک خود چین سے ترقی کے لیے قرضے لینے کا دوسرا نام ہے، جب کہ ہماری شرح نمو میں تب تک کوئی اضافہ نہیں ہو گا ۔ جب تک پاکستان ایک بہت بڑی، سیاسی، معاشی اسٹرکچرل تبدیلی سے گزرے ہمارے شرفا جو اقتدار میں ہیں وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا ایک اور ناگزیر ٹکراؤ ہوتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ خدا خیر کرے۔

جاوید قاضی

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments