News

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.

Visit their website at: https://dusp.org/

Thank you,

انصاف کا فقدان…حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان

رسول کریمﷺ بیت اﷲ کا طواف کر رہے تھے، ایک جگہ رکے اور کعبہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’اے کعبہ! تیری حرمت بہت زیادہ ہے لیکن ﷲ کے نزدیک ایک مسلمان کے خون کی حرمت تیری حرمت سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ ‘‘ 17 ستمبر کو رات 9 بجے دیر لوئر کے طور منگ گاؤں میں ایک جنازے کے دوران اندھا دھند فائرنگ کر کے آٹھ انسانوں کو بے دردی اور وحشیانہ طریقے سے قتل اور ڈیڑھ درجن کے قریب لوگوں کو شدید زخمی کر دیا گیا۔ میں 19 ستمبر کو تعزیت کے لیے اس گاؤں پہنچا تو جنازگاہ میں مقتولین کے جوتے اور کچھ خون آلود کپڑے موجود تھے، ہر طرف انسانی خون بکھرا اور جما ہوا تھا ۔ میں ورثا سے ملا، تعزیت اور دعا کی۔ کچھ مقتولین کے معصوم یتیم بچے میرے پاس بیٹھے تھے اور مجمع میں اپنے اپنے والد کو تلاش کر رہے تھے۔ میرا دل بھر آیا اور میں سوچنے لگا کہ ان معصوم بچوں کا کیا گناہ تھا کہ ان کے سروں سے باپ کا سایہ چھین لیا گیا۔

ابھی ہم 20 ستمبر کو واپس آرہے تھے، راستے میں اطلاع ملی کہ دیر بالا کے گاؤں براول میں ایک چھوٹے سے حجرے یعنی ڈیرے میں 11 لاشوں کا ڈھیر لگا دیا گیا۔بیس کے قریب لوگ زخمی ہو گئے، خون میں لت پت لوگ تڑپ تڑپ کر جانیں دے رہے تھے۔ اسی طرح کراچی جیسے شہر میں 14 اگست کے تاریخی دن شادی پر جاتے ہوئے ایک خاندان کو نشانہ بنایا گیا اور مزدا وین میں بم پھینک کر 13 انسانوں کو بارود میں جلا دیا گیا۔ مرنے والوں میں سات خواتین اور چھ بچے تھے پورا خاندان ختم ہو گیا ۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے علاقے مچھ میں دس مزدوروں کو گولیاں مار کر پہلے قتل کیا گیا اور پھر ان کی گردنیں جسموں سے الگ کر دی گئیں۔ اس طرح کے واقعات کا تسلسل ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آرہا، ایک کے بعد دوسرا اور پھر دوسرے کے بعد تیسرا سانحہ ہوتا ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں قتل و غارت گری کا نیا دلدوز سانحہ نہ ہوتا ہو، ہر نیا سانحہ سفاکیت میں پہلے سے اتنا بھیانک ہوتا ہے کہ پرانا واقعہ بھول جاتا ہے۔

ہمارا معاشرہ مسلمانوں کا ہے، جو حضورﷺ سے محبت کرنے والوں کا معاشرہ ہے۔قرآن کریم میں ﷲ کی طرف سے اعلان ہے کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے، اسی طرح ایک انسان کی زندگی بچانے کے عمل کو ایسا قرار دیا گیا ہے جیسے پوری انسانیت کو بچایا ہو۔ اسلامی معاشرے میں انسانی خون کی ارزانی کیوں ہے ؟ قاتل کو معلوم نہیں کہ وہ قتل کیوں کر رہا ہے اور مقتول یہ نہیں جانتا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا جارہا ہے؟ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرے میں قانون کی گرفت کمزور ہے۔ رشوت، سفارش یا طاقتور وکیل ہو تو ضمانت میں دیر نہیں لگتی۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ﷲ کے قانون کا نفاذ نہیں، اگر ایسا ہوتا توعوام کے جان و مال اور عزت مکمل محفوظ ہوتے۔ قانون کی عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے اب ہمارے جنازے محفوظ ہیں نہ مساجد، مدارس، حجرے، جرگے، ڈیرے اور پنچایتیں محفوظ ہیں۔

ملک میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ قتل کے واقعات میں گزشتہ سالوں کی نسبت 30 فیصد اضافہ ہوا ہے، شہر اقتدار کے ساتھ جڑے ہوئے راولپنڈی جیسے شہر میں گزشتہ سال میں جتنے قتل ہوئے تھے اس سال صرف چھ ماہ میں اس سے زیادہ قتل کے واقعات ہوئے ہیں۔ جرائم خاص طور پر قتل ، اغواء اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ایک المیہ ہے۔
عدم تحفظ کی وجہ سے عوام میں ڈپریشن اور بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔ اب تو ہمارے بچے اور بچیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اسکول اور مسجد جاتے ہوئے بچوں کو اغواء کر لیا جاتا ہے اور زیادتی کے بعد بے دردی اور سفاکیت سے بچوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ بدترین درندگی اور حیوانیت ہے جس کو روکنے کے لیے آخری حد تک جانا ہو گا۔ ہم نے زینب الرٹ بل کے موقع پر تجویز پیش کی تھی کہ بچوں سے زیادتی اور قتل پر مجرم کو پھانسی کی سزا ہونی چاہیے، دو چار درندوں کو لٹکا دیا جاتا تو ہمارے پھولوں جیسے معصوم بچے محفوظ ہو جاتے مگر حکومت نے ہماری یہ تجویز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانات کے بجائے کارکردگی کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دیں گے۔ اب تو وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں، پولیس کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اور کے پی کے ہر ضلع میں قریبا 6000 ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں جو جدید ترین اسلحے سے لیس ہیں، انھیں ہر طرح کی جدید سہولیات بھی میسر ہیں، لیکن اس کے باوجود جرائم میں کمی آنے کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دیر پائین اور دیر بالا کے متاثرہ خاندانوں کے غم میں پوری سوسائٹی شریک ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ دونوں اضلاع کے افراد پر مشتمل 40 رکنی ایک جرگہ بنایا گیا ہے جس نے متحارب قبائل میں جاری لڑائی عارضی طور پر رکوا دی ہے۔ انھوں نے طے کیا ہے کہ کھلے عام اسلحہ لے کر گھومنے پر سخت پابندی ہو گی اور اسی طرح شادیوں اور دیگر تقریبات میں اسلحہ کی نمائش سختی سے ممنوع ہو گی، راستوں میں کوئی ایک دوسرے پر وار نہیں کرے گا۔

لیکن یہ عارضی اقدامات ہیں، اصل حل یہ ہے کہ قانون کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے، مجرموں کی پشت پناہی نہ ہو، جن وجوہات کی بنا پر لوگوں کے درمیان نفرتیں اور دشمنیا ں پیدا ہوتی ہیں ان کو ختم کیا جائے۔ اراضی اور قتل کے مقدمات کے جلد فیصلے ہوں۔ یہ مقدمات سال ہا سال چلتے ہیں، جوان بوڑھے اور بوڑھے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں مگر مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ ہم مدینہ کی جس اسلامی ریاست کی بات کرتے ہیں اس میں تو ایک جانور کی جان کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کے متعلق بھی مجھ سے پوچھا جائے گا۔ علماء کرام سے اپیل ہے کہ وہ اپنے خطابات بالخصوص خطبات جمعہ میں انسانی جان کی حرمت اور حفاظت کو اپنا موضوع بنائیں، اصلاح معاشرہ کی ذمے داری بلاشبہ سب سے زیادہ علماء کرام ہی کی ہے۔ معاشرے میں جرائم کے سدباب کے لیے دنیا اور آخرت میں جواب دہی کا احساس دلوں میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم اور دیگر وزرا اقتدار میں آنے سے پہلے اپنے بیانات میں اکثر کہتے تھے کہ جب کسی مقتول کے قاتل پکڑے نہیں جاتے ، تو سمجھ لیں اس کے قاتل حکمران ہیں، اب ان کی حکومت میں ہرروز درجنوں قتل ہو رہے ہیں، انھیں چاہیے کہ کبھی کبھار اپنے سابقہ بیانات کو نکال کر سن اور دیکھ لیا کریں۔

سراج الحق 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments