چند روز قبل پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک ارب ڈالر کے قرضے کی نئی قسط کے حصول کے لئے ورچوئل مذاکرات کا آغاز ہوا ہے جس میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ انکم و سیلز ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے حوالے سے آمدن بڑھانے کے مزید اقدامات کرے تاکہ سالانہ محصولات کا ہدف 58 کھرب روپے سے بڑھا کر 63 کھرب ہو جائے۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف کی یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ بجلی ٹیرف کی بنیادی قیمت میں 1.40 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے تاکہ گردشی قرضوں پر قابو پایا جا سکے لیکن یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر بنیادی ٹیرف میں اضافہ نہ ہوا تو گردشی قرضہ مینجمنٹ پلان کو حتمی شکل نہیں دی جا سکے گی۔ ذرائع کا خیال ہے کہ ان مذاکرات کی روشنی میں ایف بی آر کا ہدف آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پورا کیا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف نئے مالی سال کے پہلے تین ماہ بلکہ 2020-21 کے بھی آخری تین مہینوں میں ایف بی آر کو ریونیو بڑھانے میں کچھ کامیابیاں ملی ہیں اور اس وقت بھی وزارتِ خزانہ و محصولات کے ایون ہائے صنعت و تجارت کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں اگر دونوں فریق ایک دوسرے کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے درمیان کا کوئی راستہ نکال لیں تو بڑی حد تک مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اور آئی ایم ایف کا مطالبہ ٹیکس نیٹ بڑھا کر پورا کیا جا سکتا ہے جس کے حصول کیلئے ماضی کی حکومتیں بھی کوششیں کر چکی ہیں اور یہ فی الواقع قومی معیشت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ اس وقت 22 کروڑ کی آبادی میں محض 33 لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں ہیں البتہ ملک میں بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو چکی ہیں جس سے غریب، متوسط اور تنخواہ دار طبقہ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے،
وزیراعظم عمران خان مہنگائی کی اس سطح کو عوامی امنگوں کے مطابق نیچے لانے کیلئے سنجیدہ ہیں اور آنے والے دو ماہ میں اس کے عملی نفاذ کا اعلان بھی کر چکے ہیں ایسے میں جیسے بھی ہو بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں نیچے لانا ناگزیر ہو گا۔ مزید برآں ایف بی آر نے ذاتی انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کی بھی تجویز دی ہے اس حوالے سے مختلف تجاویز زیر غور ہیں جس کے ذریعے اضافی 100 ارب روپے سے 150 ارب روپے تک کا ٹیکس حاصل کیا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ رواں مالی سال میں مزید جی ایس ٹی استثنیٰ واپس لئے جانے کی بھی تجویز ہے جو اس حد تک بہتر ہے کہ اس کی زد میں آنے والی اشیا کی فہرست اشیائے ضروریہ سے ہٹ کر ہو۔ ساری صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو اس وقت نہ صرف 39 ہزار ارب روپے کے بیرونی اور 498 ارب کے اندرونی قرضوں کا سامنا ہے اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کے خطرے کے نشان کی طرف بڑھنے کو روکنے کیلئے حکومت کو بالآخر آئی ایم ایف ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے جو ایک کڑوی دوا کے مصداق ہے۔
ماضی کی حکومتوں کو بھی انہی حالات کا سامنا رہا ہے لیکن صد افسوس کہ ہمیشہ قرضے حاصل کرنے ہی کی بات کی گئی ہے اس کی بڑی وجہ ایڈہاک ازم رہا ہے جس کے تحت ہر حکومت کی ترجیحات اس کی زیادہ سے زیادہ 5 سالہ مدت تک محدود رہی ہیں۔ بلاشبہ موجودہ زمانے میں قرضے معاشی نظام کا ناگزیر جزو سمجھے جاتے ہیں۔ مالی وسائل کے ہوتے ہوئے بھی سرمایہ کاری کے لئے قرضوں کا حصول بنیادی ضرورت کے زمرے میں آتا ہے تاہم شومئی قسمت کہ وطن عزیز میں ایک قرضہ اتارنے کیلئے دوسرے کا حصول ایک مجبوری اور بےبسی کے سوا کچھ نہیں اور یہ بات ملکی معیشت کے لئے اچھی نہیں جس کی رو سے ناگزیر ہو چکا ہے کہ آنے والی نسلوں کو مقروض کی بجائے مالی طور پر مستحکم پاکستان دیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments