News

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.

Visit their website at: https://dusp.org/

Thank you,

یونیورسٹیاں ۔ جہل کے لشکر

آج اتوار ہے۔ اپنے مستقبل سے تبادلۂ خیال کا دن۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے سوالات کے جواب دینے کا یوم۔ ان سب نے ایک سوال کر کے مجھے لاجواب کر رکھا ہے کہ ملک میں اتنی یونیورسٹیاں سرکاری اور پرائیویٹ قائم ہوگئی ہیں لیکن جہل کے لشکر دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب ان ہستیوں سے حاصل کیا گیا جن کے ماہ و سال کلاس روموں میں گزرتے ہیں۔ میں ان محترم مقتدر پاکستانیوں کا ممنون ہوں کہ انہوں نے وقت نکالا۔ میرے اس استفسار پر اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین طارق بنوری نے رہنمائی کی کہ اسباب بہت سے ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم کا فلسفہ۔ سیکھنے کی اہلیت کی بجائے کسی ہُنر کا اکتساب ہو گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ سوشل سائنسز اور انسانیت کی وقعت کم ہو گئی ہے۔ اکنامکس۔ سوشیالوجی۔ سیاسیات۔ بشریات۔ انسان کو سکھاتی ہیں کہ معاشرے کیسے آگے بڑھتے ہیں۔ 

انسانی علومِ فلسفہ۔ اخلاقیات۔ تاریخ۔ ادب۔ فنون۔ مقصدِ حیات سے روشناس کرواتے ہیں۔ تدریس کا معیار پست ہو رہا ہے۔ ذہین اور بہترین طلبہ و طالبات کی ان علمی پروگراموں میں شرکت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ سیاسی مباحث اخلاقیات اور اقدار سے عاری ہیں۔ ہم نے نئی انڈر گریجویٹ پالیسی سے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی تو مافیاز پوری قوت سے اس کی مخالفت میں نکل آئے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ابتدا میں معیار کی بجائے مقدار پر زیادہ زور دیا۔ یونیورسٹیوں کو ایسے پروگرام شروع کرنے پر مجبور کیا گیا۔ نا اہل افراد کو ڈگریاں تفویض کی گئیں۔ یونیورسٹیوں اور پروفیسروں کو ہر پی ایچ ڈی کی سند پر معقول معاوضہ دیا گیا۔ یہ نہ دیکھا گیا کہ پی ایچ ڈی کا معیار کیا ہے؟ایک سبب یونیورسٹیوں کے قیام میں بہت پست معیار۔ وائس چانسلرز کی تقرری میں اہلیت کو نظر انداز کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے منظور نظر افراد نے گزشتہ دو دہائیوں میں سسٹم کوبرباد کر دیا۔ اوسط ذہنیت کے لوگ اعلیٰ عہدوں تک پہنچ گئے۔

ہم نے اخوت کے بانی امجد ثاقب صاحب سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں سے جہالت کم نہیں ہوتی۔ جہالت کم ہوتی ہے، گھر، محلے اور مسجد کی تربیت سے۔ معاشرے میں اچھی روایات سے۔ اب یہاں سچ بولنے کی عادت نہیں۔ جھوٹ سے نفرت کی خواہش نہیں۔ جو کچھ پڑھایا جارہا ہے چاہے استاد ہوں یا مولوی۔ وہ بھی جہالت ہے۔ نئی سوچ کو متروک کیا جارہا ہے۔ درسگاہوں میں یہ نہیں سکھایا جارہا کہ دوسرے کا موقف سن کر جواب دلیل سے منطق سے دیا جانا چاہئے۔ یونیورسٹیاں جتنی مرضی بنادیں۔ جہالت کم نہیں ہو گی۔ سیاستدان وعدہ کریں جھوٹ نہیں بولنا۔ تاجر کہیں کم نہیں تولنا۔ محراب و منبر صرف سچی بات کریں۔ تو جہالت کم ہو گی۔ انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے ایک اہم رجحان کی نشاندہی کی کہ یونیورسٹیوں میں ممکنہ طور پر کوشش کی جارہی ہے کہ تحمل۔ برداشت۔ کثیر الثقافت۔ کثیر المذاہب معاشروں والے رویے سکھائے جائیں۔ 

مگر متوازی طاقتیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کو روکا نہیں جارہا۔ فلٹر پلانٹ چل رہا ہے لیکن آلودگی پھیلانے والے زیادہ طاقت ور ہیں۔ انتہا پسندانہ رویوں کی بہت عرصے سے سرپرستی جاری ہے۔اس لیے عام ذہنوں میں یہ تذبذب ہے کہ پُر تشدد انتہا پسندی ہی شاید درست ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی جہل اور تشدد کا بڑا سبب قول و فعل میں تضاد اور عدم مساوات کو قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو ڈگری اور اچھی ملازمت کے حصول کی دوڑ میں لگانے کی بجائے ایک اچھا انسان بنانے کے لیے ان کی کردار سازی پر توجہ دینی چاہئے۔ پاکستان کو اتنا نقصان جنگوں سے نہیں ہوا جتنا انتہا پسندی اور عدم برداشت کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گردی سے ہوا ہے۔ ڈاکٹر محمد آصف سابق وائس چانسلر جامعہ پشاور نے مہربانی کی، ان کے نزدیک اخلاقی بحران کا ایک سبب تو 1980 کی دہائی کے بعد سے معاشرتی اخلاق میں عمومی انحطاط ہے۔

اس سے پہلے لوگ اَن پڑھ تھے لیکن اصول۔ دیانت۔ عزت نفس جیسی اقدار کردار کا بنیادی جزو تھیں۔ منشیات۔ رشوت۔ کلاشنکوف نے معاشرے کو دولت کا غلام بنا دیا۔ نتیجہ یہ کہ پہلے عوام صرف اَن پڑھ تھے اب جاہل بن گئے ہیں۔ جہاں تک یونیورسٹیوں کا تعلق ہے۔ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والوں کو ایک غیر معیاری نظام تعلیم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے بعد اساتذہ کو تحقیقی مقالہ جات کے عوض کثیر انعامات، ترقی اور مراعات کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ ہر سال چھپنے والے ہزاروں تحقیقی مضامین کا ڈھنڈورا وزیراعظم کے سائنس کے مشیر ہر وقت پیٹتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ مقالات ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی کو ایک مثبت رُخ دینے میں ناکام رہے ہیں جس کا نتیجہ ایسے گریجویٹس کی صورت میں مل رہا ہے جو فکری نا پختگی اور اخلاقی تنزلی کی وجہ سے جاہلوں سے بھی بدتر ہیں۔ 

سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی۔ قائد اعظم کی تربیت گاہ رہی ہے۔ اس کے وائس چانسلر پروفیسر مجیب صحرائی صورت حال کے اسباب میں آبادی میں اضافے اور والدین کی طرف سے بچوں کی پست پرورش کو سرفہرست رکھتے ہیں۔ پھر پرائمری۔ ثانوی۔ اور اعلیٰ تعلیم کی ناقص منصوبہ بندی اور غیر ذمہ دارانہ بندوبست۔ نصاب کا غیر منطقی خاکہ اور عقل سے ماورا مضامین۔ وہ اہم نشاندہی کر رہے ہیں کہ اساتذہ کے انتخاب میں اہلیت نظر انداز کی جاتی ہے۔ یونیورسٹیاں اپنے طور پر بہت کوشش کر رہی ہیں کہ کمزور تعلیمی معیار اور غیر تسلی بخش تربیت کا پس منظر رکھنے والے بچوں کو بہتر تربیت دے سکیں لیکن اب بھی ان کا معیار قابل قبول نہیں ہے۔ دیکھیں ان درد مند پاکستانیوں نے کتنی حقیقت پسندی سے متعلقہ اسباب کی نشاندہی کی ہے اور یہ رہنمائی بھی کی ہے کہ یونیورسٹیوں سے اچھے شہری حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔ یونیورسٹیاں دریا ہیں۔ میٹھے پانی کی روانی کا وسیلہ لیکن معاشرہ کڑوے پانی کا سمندر بنا ہوا ہے۔ یہ میٹھا پانی جو ہر سال اس معاشرے میں گرتا ہے۔ یہ بھی کڑوا ہو جاتا ہے۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments