پاکستان کا شروع دِن سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ ہر جانے والی حکومت حکومتی اخراجات میں اضافے کی شکل میں ایک بڑا بجٹ خسارہ چھوڑ کر جاتی ہے۔ نئی آنے والی حکومت کو جب یہ خسارہ ورثے میں ملتا ہے تو اُس کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالنے کے بعد جب ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو اس نے جولائی 2019 میں پاکستان کو تین برس کے دوران چھ ارب ڈالر کا قرض دینے کی منظوری دی تھی تاکہ پائیدار اقتصادی ترقی کو مدد فراہم کی جا سکے۔ اِس پروگرام کے تحت پاکستان کو دو قسطوں میں 1.5 ارب ڈالر کی رقم فراہم کی گئی لیکن یہ پروگرام اس وقت التوا کا شکار ہو گیا جب پاکستان نے آئی ایم ایف شرائط کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔
اب آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالرز کے پروگرام کی بحالی کے لیے حکومت نے بچوں کے دودھ، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور موبائل فونز پر 17 فیصد جی ایس ٹی کی تجویز دی ہے لیکن آئی ایم ایف پر کبھی اخراجات میں اصلاحات کے لیے دباؤ نہیں ڈالا گیا۔مزید یہ کہ آئی ایم ایف پروگرام میں کوئی ایسی شرط نہیں تھی کہ اخراجات کے حوالے سے کوئی اصلاحات کی جائیں گی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اخراجات گزشتہ چار برس میں 75 فیصد بڑھ چکے ہیں۔ ماہرینِ معاشیات کا جاری اخراجات میں کمی لانے کے حوالے سے کہنا ہے کہ اِس مقصد کیلئے پالیسی سازوں کو بالواسطہ ٹیکس لگانا ہوں گے، جس کے نتیجے میں صارف قیمتوں میں اضافہ ہو گا، نتیجتاً مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہو گا۔ پاکستان میں مہنگائی پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، حکومت کو جاری اخراجات میں کمی لانے اور ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ایسی ٹھوس پالیسی سازی کرنی چاہئے جس سے ملک کا قرض بھی اُتارا جا سکےاور عام آدمی کی زندگی بھی سہل بنائی جا سکے ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments