News

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.

Visit their website at: https://dusp.org/

Thank you,

ﷲ پاکستان پر رحم فرمائے

چند ہفتے قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوام کو بتایا تھا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے سستے ترین ممالک میں ہوتا ہے اور یہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ترین سطح پر ہیں۔ اس کے بعد وزیروں مشیروں کی طرف سے بھی تواتر کے ساتھ ایسے بیانات سننے کو ملتے رہے۔ چند دن پہلے برطانوی جریدے اکانومسٹ نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں دنیا کے مختلف ممالک میں مہنگائی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے جب کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہنگائی ارجنٹائن میں 51.2 فیصد ہے۔ اس فہرست میں ترکی دوسرے نمبر پر ہے، جہاں مہنگائی کی شرح 21.3 فیصد ہے جب کہ ہمارا ملک پاکستان مہنگائی کے حوالے سے تیسرے درجے پر کھڑا ہے اور یہاں مہنگائی کی شرح 11.5 فیصد ہے۔ یاد رہے کہ ابھی کچھ دن پہلے حکومت نے منی بجٹ منظور کیا، جس کے بعد اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ 

ماہرینِ معیشت مزید مہنگائی کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اکانومسٹ کی رپورٹ ضمنی بجٹ کی منظوری سے پہلے کے حالات کی منظر کشی کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ ضمنی بجٹ میں ہونے والی مہنگائی رپورٹ کے اعداد و شمار کا حصہ نہیں ہے۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ سامنے نہ بھی آتی، تب بھی پاکستان میں مہنگائی کی صورتحال سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ مہنگائی کے طوفان نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ دوسری طرف ملازمتوں کا بھی فقدان ہے۔ کاروباری اور معاشی سرگرمیاں دن بدن ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ آئے روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ غربت اور مہنگائی سے عاجز شہری اپنی جان لینے اور خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے کہ اہل سیاست مل بیٹھ کر ان گھمبیر مسائل کا حل تلاش کریں اور عوام کو ان مشکلات سے نجات دلائیں مگر سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو مار دھاڑ اور شعلہ بیانی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

ایک طرف اپوزیشن جماعتیں ہیں جو سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ کئے رکھتی ہیں۔ اپوزیشن کا تو خیر کام ہی یہ ہوتا ہے کہ سیاسی گولہ باری جاری رکھے تاکہ سیاسی درجۂ حرارت بڑھایا جاسکے۔ حیرت مگر تب ہوتی ہے جب حکومتی ترجمان، وزیر اور مشیر بھی جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ اہلِ دانش کہتے ہیں کہ حکومتوں کے پاس کھونے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی سیاست میں رواج یہ ہے کہ حکومتیں معاملات کوہمیشہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں، ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ اپوزیشن نے لانگ مارچ کا عندیہ دیا۔ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے، وفاقی وزراء یہ کہتے سنائی دئیے کہ 2 کے بجائے 3 لانگ مارچ کریں۔ حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اللہ جانے کہ لانگ مارچ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ سیاسی انتشار اور احتجاج کی وجہ سے سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ 

سیاسی بے یقینی ملکی معیشت پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ملک کے معاشی حالات پہلے ہی انتہائی نازک ہیں۔ ایسے میں اگر احتجاجی سیاست شروع ہوتی ہے تو قومی معیشت اور عام آدمی کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ نہ جانے آنے والے وقت میں سیاسی منظر نامہ کیا رُخ اختیار کرتا ہے۔ بس یہ دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ پاک ہم پر رحم فرمائے اور ملک کو مشکلات کے بھنور سے باہر نکالے۔ آمین۔ دوسری طرف دہشت گردی کے عفریت نے بھی سر اٹھا لیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کے سات واقعات ہوئے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں بھی دہشت گردی کے واقعے کے بعد الرٹ جاری کر دیا گیا۔ گزشتہ دور میں ہونے والے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے بعد دہشت گردی کا جن کافی حد تک قابو میں آگیا تھا۔ اب طویل وقفے کے بعد دہشت گردی کی یہ نئی لہر نہایت تشویش ناک ہے۔ اللہ کرے کہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھے۔ اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو مصائب میں گھرے عوام مزید مشکل میں پڑ جائیں گے۔

پی ٹی آئی حکومت نے تبدیلی لانے کیلئے تقریبا تمام حربے آزما لئے اور وہ مہنگائی ختم کرنے کے بجائے مہنگائی کو اور اوپر لے گئی ایک لے دے کر ادویات کا شعبہ بچا تھا مگر ہمارے موجودہ وزیر خزانہ نے اس کو بھی نہیں بخشا، ادویات جس پر پوری دنیا میں کہیں ٹیکس نہیں لگتا ہمارے وزیر خزانہ نے GST لگا دیا۔ گویا اب ادویات کے صارفین کو 17 فیصد اضافی ٹیکس دینا پڑے گا۔ حال ہی میں مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت نے جو پی ٹی آئی حکومت کا حصہ بھی ہیں، عمران خان سے سفارش کی ہے کہ ادویات پر 17 فیصد جی ایس ٹی نہ لگائیں اور حکومت دالوں، بچوں کے دودھ، ادویات اور ضروری اشیاء پر عائد جی ایس ٹی واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ٹیکس لگاتے وقت غریب آدمی کے استعمال میں آنے والی چیزوں کے بارے میں بھی سوچے، اس سے ایک عام شہری متاثر ہو گا۔ حکومت کو غریبوں کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں، سیاسی جماعتوں کی پالیسیاں عوام پر اثر انداز ہوتی ہیں، سیا سی جماعتیں عوامی مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لیے عملی منصوبے بنائیں، تمام پارٹی لیڈرز عوام کی فلاح کے لیے منصوبے بنائیں دوسری طرف فارما انڈسٹری بھی اس ٹیکس کو ری جیکٹ کر چکی ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کر ے گی۔ جن میں فیکٹریوں کی ہڑتال بھی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا حکومت اس نازک مسئلے کو سمجھے اور اس سے اجتناب کرے۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments