دنیا میں جس بھی قوم نے ترقی کی ہے اس نے تعلیم کو ہی ترقی کے لیے بطور سیڑھی استعمال کیا ہے۔ بھارت اس حوالے سے ہمارے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے شہری اپنی تعلیم کی بنیاد پر ہی آج کل دنیا کے تقریباً تمام بڑے ٹیکنالوجی اداروں میں کام کر کے اپنے ملک کا نام روشن کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی تعلیم کے حوالے سے شعور بیدار ضرور ہو رہا ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام اِس حوالے سے ٹھیک نہیں ہے۔ اس وقت سندھ میں اعلیٰ تعلیمی نظام جس زبوں حالی کا شکار ہے، اس سے قوم کے روشن مستقبل کی بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنا دانشمندی نہیں ہو گی۔ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ کراچی یونیورسٹی جہاں 40 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، وہاں گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے کوئی مستقل وائس چانسلر تعینات نہیں ہوا ہے۔
ماضی میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قیصر کی مدت مکمل ہونے کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے قائم کی جانیوالی تلاش کمیٹی نے ایک طویل مرحلے کے بعد جن تین افسروں میں سے کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر تعینات کرنے کی منظوری دی تھی ان میں ڈاکٹر اجمل پہلے نمبر پر تھے، دوسرے نمبر پر ڈاکٹر خالد عراقی اور تیسرے نمبر پر ڈاکٹر فتح برفت تھے۔ لہٰذا ڈاکٹر اجمل کو کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کر دیا گیا، جبکہ تیسرے نمبر پر آنے والے ڈاکٹر برفت کو بعد میں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کر دیا گیا تھا، تاہم کچھ عرصے بعد جب ڈاکٹر اجمل کی اچانک وفات ہوئی تو تلاش کمیٹی کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آنے والے ڈاکٹر خالد عراقی کو کراچی یونیورسٹی کا قائم مقام وائس چانسلر مقرر کر دیا گیا، جس کے بعد سندھ حکومت کی تلاش کمیٹی نے ایک بار پھر مستقل وائس چانسلر کی تلاش شروع کی، اشتہارات دیے گئے، وائس چانسلر کے امیدوار کے لیے 25 ریسرچ پیپرز کی شرط رکھی گئی جس پر غالباً ڈاکٹر خالد عراقی ہی پورا اترتے تھے
تاہم دیگر امیدواروں کے اعتراض کے بعد دوبارہ اشتہار دے کر ریسرچ پیپرز کی تعداد کو پندرہ تک محدود کیا گیا تو کچھ امیدوار اس معاملے کو عدالت میں لے گئے جہاں اب میڈیا رپورٹس کے مطابق فیصلہ آچکا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی کو عہدے سے ہٹا کر گریڈ 22 کے کسی افسر کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کیا جائے، جبکہ قانونی ذرائع کا کہنا ہے کہ کیس کے دوران وکلاء نے عدالت کے سامنے بعض حقائق ہی نہیں پیش کئے جس کے تحت یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق چانسلر جو وزیراعلیٰ سندھ ہیں، کسی بھی گریڈ 21 کے افسر کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کر سکتے ہیں جبکہ یونیورسٹی میں گریڈ 22 چند ہی پروفیسرز کو ملتا ہے، اس کا سنیارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اس وقت کراچی یونیورسٹی میں گریڈ 22 کا کوئی افسر ہی موجود نہیں ہے۔
بہرحال فیصلہ تو اپیل کے بعد عدالت کو ہی کرنا ہے تاہم اس وقت ایک اور اہم مسئلہ صوبہ سندھ کے پانچ تعلیمی بورڈز کے چیئرمینوں کی تقرری اور تین تعلیمی بورڈز کے سیکریٹریوں کے تقرری کا ہے، جن کے لیٹرز گزشتہ کئی ماہ سے وزیر برائے بورڈز و جامعات کی ٹیبل پر ان کے دستخط کے منتظر ہیں جنہیں بلاوجہ طول دیا جا رہا ہے جس سے پانچ شہروں کا تعلیمی عمل متاثر ہو رہا ہے، اس کے علاوہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں بھی وائس چانسلر کے لیے تلاش کمیٹی کی جانب سے پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے کو مقرر کیے جانے کے خلاف عدالت سے رجوع کر رکھا ہے جس پر عدالت نے تقرر نامہ تو معطل کر دیا ہے لیکن فیصلہ تاحال کئی ماہ سے محفوظ ہے۔ امید ہے کہ اربابِ اختیار اعلیٰ تعلیمی معاملات کی درستی کے لیے بروقت اقدامات کریں گے۔
محمد عرفان صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments