پاکستان کی قومی سیاست کے دائمی امراض کی تشخیص تو مدتوں سے ہو چکی۔ جو مزید لاحق ہو رہے ہیں ان کی وجہ پکڑتے بھی دیر نہیں لگتی۔ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ہر حکومت پر جائز تنقید معمول ہے۔ گویا حکومتوں کا میڈیا سے ’’حسن سلوک‘‘ اور پابندیاں چلی آ رہی ہیں۔ تاہم ہمارے بعض ذرائع ابلاغ عامہ بھی کوئی کم منہ زور نہیں۔ اُن میں سے بھی بعض بے رحمی سے حکومتوں کا برا دکھانے میں برابر کا جوڑ ثابت کر دیتے ہیں۔ حکومتی امراض میں بیوروکریسی کی طرح میڈیا کو بھی شریک کرنا اپنی جگہ باڈی آف میس کمیونیکیشن کا بڑا ایشو ہے لیکن میڈیا کی آزادی کا ذمے دارانہ استعمال پھر بھی کم تو نہیں، وگرنہ اسٹیٹس کو کی اصلیت، مالی کرپشن سے لتھڑے بڑے بڑے اسکینڈلز، سول حکومتوں کی قانون شکنی اور اسٹیبلشمنٹ کی ماورائے آئین مداخلت قومی خزانوں پر ہاتھ صاف کرنے اور کرپشن کی داستانیں بے نقاب ہو کر ان کا احتساب کیسے میڈیا کا ایجنڈا اور سیاسی ابلاغ کے مکرر بیانیوں کی شکل اختیار کرتا۔
اور اب تو سوشل میڈیا مین اسٹریم اور روایتی میڈیا سے دو نہیں دس ہاتھ آگے جا رہا ہے ملکی عدالتی نظام پر عوامی عدم اعتماد و اطمینان کو جو کچھ سنبھالا وکلا تحریک (2007) سے ملا تھا، وہ احتسابی عمل نتیجہ خیز اور شہریوں پرقانون کا یکساں اطلاق نہ ہونے کے تواتر کے باعث دوبارہ ڈگمگا گیا ہے۔ بار اور بنچ کا روایتی رشتہ کمزور ہو کر، بار کی بنچ پر چڑھائی کے کتنے ہی واقعات وکلا کی تحریک نتیجہ خیز ہونے کے بعد سامنے آئے ہیں، جسے میڈیا کے فالو اپ نے اپنے تئیں سنبھالنے کی پیشہ ورانہ کوشش کی لیکن ناکام ہے۔ بار کی انتخابی سیاسی تقسیم بھی ملکی عملی سیاسی ڈیوائڈ کے حوالے سے مکمل عیاں ہے۔ ایسے ہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جاری آئینی وسیاسی بحران کے تناظر میں ایک مقدمے کی رٹ پٹیشنر بھی ہے۔ موجودہ بے وقت شروع کیا گیا سیاسی بحران مہلک فوری اور دور رس نتائج دینے کے خدشات سنجیدہ طبقے میں بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ سخت فکر مند ہے۔
خصوصاً ایسی گھمبیر صورتحال میں کہ ’’حل‘‘ کے طور پر جو انتہائی غیر آئینی روایتی حل دھمک کر بظاہر بحران کو کم اور ختم کرتے تھے، اب تو اس کی گنجائش بھی ختم ہوئی یا کر دی گئی، واضح رہے اس کا تو کوئی غم نہیں کہ ایسے حل کے دور رس نتائج کبھی بھی بہتر نہ نکلے بلکہ وقتی یا طویل حاکمیت کے بعد بڑے حادثے پر منتج ہوئے۔ یہ حادثہ کیا کم ہے کہ ہماری دو بڑی پاپولر سیاسی جماعتیں فوجی آمریت کی کوکھ سے نکل کر فیملی ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل ہو کر جمہوری کہلائی ہیں۔ اب جو شدید عدم استحکام پیدا ہوتا نظر آ رہا ہے عجب ہے کہ یہ آئین میں موجود ایک ایسی گنجائش سے ممکن ہو گا جو آئین کی روح اور قانون و انصاف کی فلاسفی سے تو متصادم ہے لیکن آئین میں موجود جمہوری اور ترقیاتی عمل کو یکدم بریک لگا کر ایک بڑے مہلک سیاسی کھلواڑ کا آئینی راستہ دکھاتا ہے۔ اسے میڈیا نے ہی اپنے پروفیشنلزم سے سوالوں کی بوچھاڑ سے دکھایا، بتایا اور سمجھایا ہے کہ جب تمام جمہوری اقدار، عوامی مینڈیٹ کے احترام و عزت کو پامال کر کے حکمران جماعت کے بارہ پندرہ منتخب عوامی نمائندے، وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب کرنے کیلئے آمادہ فلور کراسنگ ہوں گے تو ان کی راہ میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں، تاہم ان کے خلاف اس بدترین سیاسی جمہوری بداخلاقی کے خلاف آئینی قانونی کارروائی بعد از ووٹ ہو سکے گی۔ 18ویں ترمیم کے بعد عوام تو یہ ہی سمجھتے رہے کہ ترمیم کے ذریعے آئین کا بگڑا حلیہ مکمل درست کر دیا گیا ہے۔
متذکرہ صورت حال میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور عمران خان کے جلسے میں طویل ترین خطاب سمیت سیاست دانوں پر مشتمل وفود کی قلیل ووٹوں کی حامل جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں، شرائط، تعاون، خاموشی اور جواب دینے اور مزید مہلت کی خبروں کا طلاطم ایک ایسے وقت اور بھر پور موجود اور ظہور پذیر مواقع کے حقائق اور عیاں منظر میں جمہوری ارتقائی (کمزور ہی سہی) اور بنیادی اور وسیع تر رواں دواں ترقیاتی عمل کےآگے بریک لگنے کے امکان واضح ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں ڈیڑھ سال عالمی وبا کے بحران کے باوجود تھرمل پاور (پن بجلی) کے دس بڑے چھوٹے منصوبے، صحت کارڈ، دنیا بھر میں تسلیم کی گئی کوویڈ کرائسس، سمارٹ مینجمنٹ، ٹیکس، ایکسپورٹ، زرعی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ، صحت کارڈ جیسا بڑا فلاحی قدم عملاً اٹھانے، کرپشن پر اپنے ہی وزرا مشیروں کے خلاف کارروائی، کنسٹرکشن اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کو صرف بحال نہیں اس میں وسعت لانے، سیاحت و ماحولیات کے منصوبوں، دو نئے شہروں کی منصوبہ بندی، بڑے شہروں کے ماسٹر پلان جیسے ترقیاتی اقدامات کی کارکردگی کا جو حساب عوام کے سامنے رکھا ہے وہ ان کی ناتجربے کاری، سب سے بڑھ کر عالمی وبائی بحران اور کمزور اور نااہل ٹیم کے ساتھ بڑی اور قابل قدر کامیابی کیسے نہیں؟ مہنگائی کی دہائی کس دور میں نہیں ہوئی، ان کی کامیابیوں، اختراعی ایجنڈے پر عملی اقدامات، کوویڈ بحران میں عوام کے ساتھ جڑے رہنے انہیں ممکنہ حد تک ریلیف دینے اور بے روزگاری سے بچائے رکھنے کے اقدامات اور صنعتی زرعی سیکٹر کو سرگرم رکھنے کے پس منظر میں اپوزیشن نے جو طوفان اٹھایا ہے وہ جمہوری ارتقائی اور ترقیاتی عمل کے لیے مہلک بنتا نظر آ رہا ہے۔ بہت بڑا عندیہ یہ ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک جو پاکستان کی واضح ہوتی ترقی میں باہمی مفاد پر شریک ہو کر پاکستان کے ساتھ اپنی قربت کو بڑھانے اور سرمایہ کاری کے منصوبوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں، ہماری سخت بحرانی کیفیت پر سخت فکر مند ہیں۔ ایسے میں جاری بحران ملک و قوم بشمول اپوزیشن کو کچھ بھی تو نہیں دے گا۔ ملکی قومی خصوصاً عوامی خسارہ مکمل واضح ہے۔ یہ اتحادیوں، عدلیہ، فلور کراسنگ پر آمادہ اراکین اسمبلی کا بڑا امتحان ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments