News

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.

Visit their website at: https://dusp.org/

Thank you,

وزیرِاعظم عمران خان کا دورہ روس پاکستان کے لیے کیوں ضروری تھا؟

یوکرین کا حالیہ بحران دنیا کے تیزی کے ساتھ نئے عالمی نظام کی جانب بڑھنے کا ایک مظہر ہے۔ ابھی اس نظام کے خدوخال پوری طرح سامنے نہیں آئے لیکن اس حوالے سے 3 اشارے بہت واضح ہیں۔ دنیا میں اب یکطرفہ اقدامات بڑھتے جارہے ہیں اور کثیر الجہتی نظام پسپائی اختیار کر رہا ہے، بین الاقوامی قوانین اور عالمی اقدار کو جان بوجھ کر پامال کیا جارہا ہے اور ابھرتے ہوئے چین اور دوبارہ سر اٹھاتے ہوئے روس کے ساتھ امریکا اپنے مقابلے میں تیزی لارہا ہے۔ اس مقابلے میں آنے والی تیزی بلاک میں تقسیم سیاست، نئی صف بندیوں اور اتحادوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکا نے اپنی انڈو پیسیفک حکمتِ عملی اور خاص طور پر چین کے ساتھ مقابلے کے لیے بھارت پر نظرِ کرم کی ہے جس نے روایتی طور پر روس کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ دوسری جانب چین اپنے بڑے معاشی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رسائی کو وسیع کر رہا ہے اور اپنے سرمائے اور اشیا کے لیے نئی منڈیوں کو تلاش کر رہا ہے۔  روس بھی اس ابھرتی ہوئی نئی دنیا میں اپنے اثر و رسوخ کی کوششیں کررہا ہے۔امریکا اور روس کے درمیان کئی برسوں سے کشیدگی جاری تھی۔

امریکا کی جانب سے روس پر عائد معاشی پابندیاں روسی معیشت پر شدید دباؤ کا باعث بنیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی امریکا اور روس ایک دوسرے کے مخالف ہی موجود ہیں۔ یوکرین بحران کے بعد سے تناؤ میں اضافہ ہو گیا ہے جس سے یورپ کے سیکیورٹی معاملات بھی بہت پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ اگرچہ روس کی جانب سے سیکیورٹی کی یقین دہانی کا مطالبہ قابلِ فہم ہے اور مغرب کی جانب سے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوشش روس کو جنگ پر اکسانے کا باعث بنی ہے لیکن پھر بھی ایک خود مختار ملک میں روس کی فوجی مداخلت نہ صرف بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے بلکہ روس اور دنیا بھر کو اس کی سخت قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح موجودہ بحران سے بھی بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے جس سے دنیا کی معیشت پر دباؤ پڑے گا اور گزشتہ سرد جنگ جیسی بلاکس کی سیاست دوبارہ شروع ہو جائے گی۔

ٹرمپ کے دور میں امریکا نے ایک طرح سے یورپ سے قطع تعلق ہی کر لیا تھا لیکن اب امریکا نے یوکرین بحران کو استعمال کرتے ہوئے روس کے خلاف یورپ کو امریکی تحفظ کی چھتری فراہم کر دی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اب امریکا یورپی ممالک پر چین کے ساتھ شراکت محدود کرنے کا دباؤ ڈالے۔ اس کا نقصان یہ ہو گا کہ یورپ میں چین کے خلاف امریکا کے جارحانہ اقدامات روس اور چین کو مزید قریب لے آئیں گے اور یوں امریکا کی زیرِ قیادت مغربی دنیا کے خلاف ایک بلاک بن جائے گا۔ اس وقت عالمی امن داؤ پر لگا ہوا ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے معاملات طے کیے جائیں۔ دریں اثنا ایسا لگتا ہے کہ صدر پیوٹن روس کی عالمی سفارتی تنہائی کو روکنے اور یوریشئین خطے میں اہم کردار بننے کے لیے ایشیائی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان کا حالیہ دورہ روس بھی اسی وسیع عالمی تناظر میں ہوا تھا۔ 

بنیادی طور پر یہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک دوطرفہ دورہ تھا۔ اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس دورے کے وقت سے امریکا اور یورپ ناراض ہوئے ہوں گے اور ان دونوں کے ساتھ ہی پاکستان کے خاطر خواہ معاشی تعلقات ہیں۔ اس خیال کو رد کرتا ہوا خیال یہ ہے کہ اگر دورے کو ملتوی یا مختصر کر دیا جاتا تو گمان ہوتا کہ ایسا مغرب کے دباؤ میں کیا گیا ہے اور یوں روس کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہو جاتے۔ لہٰذا اس دورے کو جاری رکھنا ہی بہتر تھا جس سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور جس سے مستقبل میں ٹھوس تعاون کی راہ ہموار ہوئی۔ کئی سالوں سے روس اور پاکستان اپنے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کوشاں تھے۔ اس ضمن میں 2014ء میں کچھ پیشرفت ہوئی جب دفاعی شراکت کے ایک منصوبے پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس کے بعد فوجی تبادلے اور مشترکہ مشقیں بھی ہوئیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود بھی اگر معاشی میدان میں دیکھا جائے تو پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن میں روس کی سرمایہ کاری پر اب بھی بات نہیں بنی۔ دوطرفہ تعلقات میں پیشرفت کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ روس پاکستان میں کچھ معاشی منصوبوں پر کام کرے۔

یہاں ایک احتیاط لازم ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے محتاط اور ہوشیار رہنا ہو گا کہ روس پر عائد مغربی پابندیاں پاکستان میں روسی سرمایہ کاری کو متاثر نہیں کریں گی۔ روس علاقائی مسائل پر پاکستان سمیت افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دیرپا امن کے لیے تعاون میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ افغان سرزمین پر دہشتگرد تنظیموں کا دوبارہ سر اٹھانا افغانستان کے تمام پڑوسیوں کے لیے ایک مشترکہ خدشہ ہے۔ ایک پُرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعے وسط ایشیا اور روس تک تجارت کے لیے اہم راستہ بن سکتا ہے۔ روس نے اسلاموفوبیا کے حوالے سے مثبت مؤقف اختیار کیا ہے جسے پاکستان نے بھی سراہا ہے۔ تاہم روس مذہبی شدت پسندی یا دہشتگردی کے حوالے سے حساس ہے۔ اس کی وجہ اسلام پسند گروہوں کے ساتھ خود روس کی تاریخ بھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاک-روس تعلقات کا مستقبل کیسا ہو گا؟ بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست میں روس زیادہ سے زیادہ ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہے گا۔ پاکستان کی بھی کچھ ایسی ہی خواہش ہو گی کیونکہ پاکستان امریکا، یورپ، چین اور روس سمیت تمام طاقتوں کے ساتھ باہمی مفاد پر مشتمل تعلقات رکھنے کی آزادی چاہتا ہے۔ وزیرِاعظم کے دورہ روس نے پاک-روس تعلقات کو تقویت تو بخشی ہے لیکن مستقبل میں روس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے میں 2 عوامل بہت اہم ہوں گے۔ ان میں سے ایک تو روس پر مغربی پابندیاں ہیں جبکہ دوسرا بھارت کے ساتھ روایتی طور پر روس کے مضبوط تعلقات۔

اعزاز احمد چوہدری 
یہ مضمون 06 مارچ 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز


Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments