بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے جاری 6 ارب ڈالر کے سہاراتی پروگرام کی میعاد ایک سال بڑھانے اور قرضے کی رقم میں دو ارب ڈالر اضافے کی پاکستانی تجویز پر اتفاق کو بعض ناقدین کڑی شرائط، پابندیوں اور مانیٹرنگ کے ایک اور کٹھن دور سے تعبیر کر سکتے ہیں مگر درپیش حالات میں ایک بہتر تدبیر کے طور پر اس کی قبولیت کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ محولہ بالا صورت میں پاکستان کے توازن ادائیگی اور زرمبادلہ ذخائر میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے توقع ظاہر کی کہ مجوزہ اضافی پروگرام پر آئی ایم ایف سے اسٹاف سطح کے مذاکرات جلد مکمل ہو جائیں گے تاہم اس مرحلے پر یہ پیش گوئی ممکن نہیں کہ ایک ارب ڈالر مالیت کی اگلی قسط جلد مل سکتی ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ بہت سے معاملات کا انحصار ہمارے سالانہ میزانیے کی تجاویز اور ان کی یقینی منظوری پر ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے لئے جو باتیں خاص اہمیت کی حامل ہیں ان میں اُس کی طرف سے ماضی میں اسلام آباد کو پیش کردہ شرائط کی تکمیل کو اولین ترجیح ہے۔ اس کے بعد ان اقدامات کا فوری طور پر واپس لیا جانا ضروری ہے جو مالیاتی فنڈ کی ہدایات کے منافی ہیں، اس کے برعکس وہی صورتحال بحال کی جانی چاہئے جو ان اقدامات سے پہلے پائی جاتی ہے۔ یہ اقدامات ایک طرف آئی ایم ایف کی پیش کردہ شرائط سے مطابقت نہیں رکھتے بلکہ بڑی حد تک ان کے منافی ہیں مثلاً پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں کمی اور زر اعانت دینے کے اقدامات آئی ایم ایف کے لئے نہ صرف ناقابل قبول ہیں بلکہ ان کی فوری واپسی ضروری ہے۔ اس وقت حکومت پیٹرول، ڈیزل اور بجلی جس شرح پر فروخت کر رہی ہے اس کی خطیر رقم اسے اپنے پاس سے ادا کرنی پڑتی ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا کے بیانات سے واضح ہے کہ حکومت کے پاس زر اعانت کی واپسی کے سوا کوئی چارہ نہیں تاہم یہ عمل مرحلہ وار اور ایسے طریقے سے ہو گا کہ عام آدمی پر اس کا بوجھ نہیں پڑے گا۔اس باب میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ چھ ارب ڈالر کی زیر التوا قسط وفاقی بجٹ کے بعد جاری کی جاسکے گی تاکہ بجٹ سے پہلے اور بجٹ تیاریوں کے دوران ماضی قریب میں کئے گئے بعض اقدامات کی واپسی اور خامیوں کی درستی کی جاسکے ۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے یہ باتیں درست ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ان کے مذاکرات مثبت و حوصلہ افزا رہے جبکہ اسلام آباد کے پاس مشکل فیصلوں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وزیر خزانہ نے جہاں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی ضرورت اجاگر کی وہاں مہنگائی کم کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ ان کی گفتگو سے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری آئی ایم ایف پروگرام سمیت کئی اہم امور میں دوٹوک حکمت عملی اور اہداف کا اظہار سامنے آیا۔
واضح ہوگیا کہ آئی ایم ایف پروگرام کو برقرار رکھتے ہوئے آئندہ سال آگے بڑھانا ہے۔ اس برس ٹیکس ریٹ بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں جبکہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بھی بے بنیاد ہیں۔ غربت میں کمی کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پیسے بڑھائے جاسکتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران حکومت نے اگر کسی ملک کے ساتھ وعدے کئے ہیں تو ان کی پاسداری کی جائے گی کیونکہ وہ کٹمنٹ درحقیقت حکومت پاکستان کے ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ آنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی اور آئی ایم ایف کی قسط نہ صرف بحال ہو جائے بلکہ قرضے کی رقم اور پروگرام کی مدت میں اضافہ بھی ہو گا۔ آئی ایم ایف کی تجاویز نہ صرف معاشی ڈھانچے میں اصلاح کا ذریعہ بنیں گی بلکہ اس پروگرام میں وسعت دیگر مالیاتی امور میں آسانی کا ذریعہ بھی بنے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments