آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اس وقت دنیا میں صرف 5 ممالک ہیں، پانچوں ممالک کی آبادی، رقبہ اور زمینی کیفیت ایک جیسی ہے، ان ممالک کو خرچ کرنے کے لیے ایک ایک ارب ڈالر دیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ پانچ سال بعد آپ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، اب یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پیسوں کو خرچ کس نے کرنا ہے؟ لہٰذاان ممالک میں کسی چیز کا فرق ہے تو یہاں بسنے والے لوگوں کا ہے، یعنی ان ممالک میں بسنے والی قومیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ایک قوم کے جینز میں دکھاؤا زیادہ ہے، تو دوسری قوم کی طبیعت غلامانہ سی ہے، جب کہ تیسری قوم معتدل مگر سہل پسند ہے، چوتھی قوم محنتی ہے اورپانچویں محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی ہے۔ لہٰذاپانچ سال گزرنے کے بعد پتہ چلا کہ پہلی تین قومیں پیچھے رہ گئیں اور چوتھی اور پانچویں آگے نکل گئیں۔ جب کہ پہلی تین قوموں میں سے پہلی دو نے ایک ارب ڈالر بھی خرچ کر ڈالا اور اس کے ساتھ مزید ڈھائی تین ارب ڈالر قرض بھی چڑھا لیا جب کہ معتدل اور سہل پسند قوم نے نہ تو قرض لیا اور نہ ہی اپنا پیسہ کسی فضول کام میں لگایا۔
اب ذرا خیالات کی دنیا سے باہر نکل آئیں اور موازنہ کریں کہ ہماری مثال بھی پہلی دو قوموں کی سی ہے جن میں دو خرابیاں ہیں ایک ’’دکھاوا‘‘ اور دوسرا ’’غلامانہ طبیعت‘‘ ۔ دکھاوے کی اگر مثال لی جائے تو ہمسایہ ملک بھارت چلتے ہیں، حالات جب بہتر تھے تو میں بھی کئی مرتبہ بھارت یاترا کے لیے گیا۔ اور پھر وہاں سے واپس آکر میں یہی سوچتا اور خوش ہوتا کہ انڈیا کے عوام ہمارے عوام سے زیادہ غریب ہیں۔ یعنی میں اپنے عوام کے امیر ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا رہتا۔ بلکہ یہ تو عام طور پر سنا اور کہا جاتا ہے کہ انڈیا کے عوام غریب ہیں اور حکومت امیر، جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے عوام امیر ہیں جب کہ حکومت غریب! لہٰذا میں یہاں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں بھی غلط تھا اور ہمارے بہت سے دانشور بھی غلط تھے! کیوں؟ ایسا اس لیے کہ وہاں کی حکومت نے ’’امپورٹڈ‘‘ نامی چیزیں عوام میں شروع ہی سے عام نہیں ہونے دیں۔ اس کے دو فائدے ہوئے ایک تو وہاں کے عوام کے اندر ’’دکھاوا‘‘ جیسی اجتماعی بیماری نے جنم نہیں لیا۔ دوسرا حکومت نے ایسا کر کے اپنے ڈالرز مشکل وقت کے لیے بچا کر رکھے۔
جب کہ آپ ہماری حکومتوں کو دیکھ لیں ہم نے شروع ہی سے ’’امپورٹڈ‘‘ کا لفظ اپنے بچوں کے ذہنوں میں ڈالنا شروع کیا۔ جس سے ہماری نسلوں میں ’’دکھاوا‘‘ جیسی بیماری نے جنم لیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے سارے ڈالر، ساری کمائی اسی امپورٹڈ چیزوں کو منگواتے گزر جاتی ہے اور ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ مثلا ًسال 2021ء کی رپورٹ کے مطابق ہم نے 55 ارب ڈالر کی چیزیں باہر سے منگوا کر استعمال کیں۔ جب کہ صرف 28 ارب ڈالر کی مصنوعات ملک سے باہر بیچ سکے یعنی 27 ارب ڈالر کا خلاء ہم نے ادھر اُدھر سے پکڑ کر پورا کیا۔ قصہ مختصر کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہوئے، بھارت نے پہلے سال ہی بڑی جاگیرداریاں، رجواڑے ریاستیں ختم کر دیں، بدیسی مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کر دی، سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں حتیٰ کہ ابھی تک وہاں تو پردھان منتری بھی وہیں کی بنی ہوئی بد شکل گاڑی استعمال کرتا ہے۔
جب کہ پاکستان شروع ہی سے ایسے بولڈ فیصلے کرنے سے گریزاں رہا اور نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ ابھی تک ہم یہ سمجھ نہیں پائے کہ ہم نے فضول خرچیاں کیسے کم کرنی ہیں اور ڈالر کیسے بچانا ہے۔ اس کے لیے اگر ہم ایکسپورٹر کے پاس چلتے ہیں، کیوں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے بعد دوسرا بڑا سہارا ایکسپورٹر ہی ہوتے ہیں تو جناب! ہمارے ہاں تو دوسروں کے دیکھا دیکھی ایکسپورٹرز کے نخرے ہی نہیں پکڑے جاتے مثلا ًہم اپنے ایکسپورٹرز کے اس قدر نخرے اُٹھا رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اس کی چھوٹی سی مثال آپ کے سامنے ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ ہم ماضی میں ٹیکسٹائل کی دنیا میں کسی سے کم نہیں رہے! لیکن اس میں بھی ہم کئی ایک خاندانوں کو نواز رہے ہیں اور حکومت ٹیکسٹائل مالکان جن کی تعداد 8 سو بنتی ہے میں ہر سال سوا ارب ڈالر تقسیم کر رہی ہے۔ بھلا وہ کیسے؟
ہوتا کچھ یوں ہے کہ ریاست کے اِن لاڈلے خاندانوں کا دعویٰ کہ ہم ملک کی خدمت پر مامور ہیں، ہم وہ کماؤ پوت ہیں جو اربوں ڈالر کی ایکسپورٹ کرتے ہیں جس سے ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے، ملک کی سیکیورٹی اور دفاع کا نظام چلتا ہے لہٰذا ہمیں خصوصی مراعات دی جائیں۔ یہ کہانی سنانے کے بعد یہ خاندان حکومت سے فرمائش کرتے ہیں کہ چونکہ اِنہوں نے ایکسپورٹ کے لیے نہایت مہنگی اور جدید مشینری لگائی ہوئی ہے اور یہ مشینری سرکاری ’’ناقابل اعتبار‘‘ بجلی پر نہیں چلائی جا سکتی کیونکہ سرکاری بجلی کی ترسیل کا نظام ناقص ہے لہٰذا انھیں نہ صرف بجلی بنانے کے لیے اپنا پاور پلانٹ لگانے کی اجازت دی جائے بلکہ اُس پاور پلانٹ کے لیے گیس بھی مہیا کی جائے۔ خیر بات ہو رہی تھی ڈالرز کو بچانے کی تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہ ہم دنیا سے 55 ارب ڈالر کی چیزیں خریدتے ہیں، لیکن اُن کی ایکسپورٹ بہت زیادہ ہوتی ہیں امریکا اگر 2.4 ٹریلین ڈالر کی امپورٹ کرتا ہے تو 2.5 ٹریلین ڈالر کی چیزیں ایکسپورٹ بھی کرتا ہے۔ یعنی 100ارب ڈالر کا پھر بھی اُسے سالانہ فائدہ ہے۔
اسی طرح اگر چین 2.05 ٹریلین ڈالر کی امپورٹ کرتا ہے تو اُس کی ایکسپورٹ 2.64 ٹریلین ڈالر ہے یعنی چین سالانہ 600 ارب ڈالر فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ پھر آپ جرمنی کو دیکھ لیں یہ ملک 1.1 ٹریلین ڈالر کی امپورٹ جب کہ 1.81 ٹریلین ڈالر کی ایکسپورٹ بھی کرتا ہے یعنی اسے بھی 700 ارب ڈالر سالانہ فائدہ ہو رہا ہے۔ مطلب آپ جاپان، فرانس، جنوبی کوریا، برطانیہ، سنگاپور یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں سبھی کی ایکسپورٹ امپورٹ سے زیادہ ہوتی ہیں۔ تبھی ان ممالک کی معیشت کو دنیا میں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہمیں ڈالر بچانے کے لیے خود بھی اقدامات کرنا ہوںگے، جیسے ہم ہر سال 2 سے تین ارب ڈالر کی چائے کافی پی لیتے ہیں، پھر ہم 6 ارب ڈالر سالانہ کی گاڑیاں خرید لیتے ہیں، 4 ارب ڈالر کی الیکٹرانک اشیاء خرید لیتے ہیں پھر ہم 20 ارب ڈالر سے زائد کی پٹرولیم مصنوعات خرید رہے ہیں اور پھر یہ سب اربوں ڈالر باہر بھیجنے کے بعد کہتے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔
یقین مانیں قرض دینے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں تو دولت کی ریل پیل ہے۔ ایک سے ایک قیمتی گاڑی سڑک پر ہے۔ ایک ایک خاندان کے پاس درجنوں گاڑیوں کا قافلہ ہے۔ لہٰذا اس کے لیے ڈالر کا غیر ضروری استعمال روکنا ہو گا۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگلے سال ہمیں قرض کا سود ادا کرنے کے لیے ہی 20 ارب ڈالر درکار ہونگے۔ لیکن اس وقت ہم قلت کا شکار ہیں زر مبادلہ 9 ارب ڈالر سے بھی نیچے آگیا ہے لہٰذا ڈالر کی قلت اُسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب ہم سب لوگ ملک کی ترقی کا سوچنا شروع کر دیں۔ ہو سکے تو زراعت پر ہی توجہ دے دیں، اپنی فصلیں اچھی اگائیں۔ تو ڈالر ہمارے کھیتوں میں بھی اگ سکتا ہے۔ پھر باہر سے زیادہ سے زیادہ ڈالر لانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لاکھوں ڈالر آسکتا ہے۔ اس کے لیے لائسنسنگ آسان کی جائے، اور ایسے ایسے طریقے اختیار کیے جائیں کہ ہم بھی ڈالر بچا سکیں اور ضرورت پڑنے پر خرچ کر سکیں۔
علی احمد ڈھلوں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments