News

6/recent/ticker-posts
Visit Dar-us-Salam.com Islamic Bookstore Dar-us-Salam sells very Authentic high quality Islamic books, CDs, DVDs, digital Qurans, software, children books & toys, gifts, Islamic clothing and many other products.

Visit their website at: https://dusp.org/

Thank you,

یہاں لوگوں کے لئے کون سوچتا ہے

عجیب اتفاق ہے کہ ملک چلانے والے سب ارب پتی ہو گئے، ملک مقروض ہو گیا اور مجال ہے کسی نے ایک دھیلے، رتی یا پائی کی کرپشن کی ہو۔ پاکستان میں چند خاندان حکومتوں میں رہے، اب بھی نظام حکومت انہی کے ہاتھوں میں ہے، یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس مقروض ملک کا قرض وہ اتارتے ہیں جنہوں نے یہ قرض لیا ہی نہیں، قرضے ہڑپ کرنے والے اور لوگ ہیں اور قرضوں کا بوجھ سہنے والے لوگ حکمرانوں سے مختلف ہیں۔ حکومتوں میں رہنے والے چند خاندانوں کو نظام پوری طرح سپورٹ کرتا ہے۔ ان خاندانوں کے کرتوتوں کی پردہ پوشی کرتا ہے، یہاں عام لوگوں کے لئے سوچنے والا غالباً کوئی نہیں۔ یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ جب میں حکمرانوں کو غیر پاکستانی لباس میں دیکھتا ہوں، ان کی چیزوں کو دیکھتا ہوں، ان کی بیگمات کے ہاتھوں میں مہنگے ترین غیر ملکی پرس دیکھتا ہوں تو یہ سوچ مجھے بار بار ڈستی ہے کہ آخر اس ملک کے عوام کا کیا قصور ہے؟ 

کیا یہ ملک مافیاز کے لئے بنا تھا؟ یہ ملک ان مقاصد سے دور کیسے چلا گیا جن کی تکمیل کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا؟ عام لوگوں اور حکمرانوں میں فاصلے اس قدر کیسے بڑھ گئے، لوگوں پر حکمرانی کرنے والوں کے طور طریقے تو عام لوگوں جیسے ہوتے ہیں۔ ایران میں کس طرح سادہ سا لباس پہننے والے امام خمینیؒ انقلاب کے رہبر بن گئے، چین میں انسان کی ترقی کا دارومدارمحنت پر ہے، وہاں خاندانی نظام ترقی کی وجہ نہیں بنتا اور پھر وہاں کا نظام کسی کی مدد نہیں کرتا، صرف لوگوں کی مدد کرتا ہے، چین نے اپنے پسماندہ علاقوں کی پسماندگی صرف دس پندرہ سال میں دور کی، افسوس ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکا، ہم ساٹھ کی دہائی میں پورے خطے میں سب سے آگے تھے، آج ہمارا تذکرہ آخری صفوں میں ہوتا ہے۔

افسوس کہ ہمارے ہاں لوگوں کی پسماندگی دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی کی ہی نہیں گئی، ہم نے نفرتوں میں آدھا ملک گنوا دیا، ہم ہنوز اس سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں، تیس چالیس برس پہلے جب ہم خطے میں آگے تھے، انہی تیس چالیس برسوں میں ہمارے ہاں ایسے خاندانوں کی حکومتیں رہیں جو بیرونی دنیا میں جائیدادیں بناتے رہے، اس دوران ملک کہیں پیچھے چلا گیا، اسی عرصے میں نظام بھی ان خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا۔ اس پورے کھیل نے کرپشن کے درخت اگائے، اب ان تناور درختوں نے دھرتی پر نفرت کا زہر گھول دیا ہے، نفرت اور دہشت سے نہ تو امن آتا ہے اور نہ ہی ترقی ہوتی ہے، خوشحالی ایسے علاقوں کا راستہ بھول جاتی ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ حکمرانوں کے مہنگے سوٹ اور مہنگی گاڑیاں غریبوں کا استحصال کرکے حاصل کی جاتی ہیں، ہم عجیب قوم ہیں ہم نے اپنے محسنوں کو بھی دکھ دیئے، ایک ٹی وی اینکر نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوچھا کہ آپ نے کبھی شاعری کی تو جواباً قوم کے محسن نے اپنا ہی شعر سنا ڈالا۔ کہنے لگے کہ :
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

شاید ہمارے پورے نظام کو ملک لٹنے کا دکھ نہیں، شاید بربادیوں کا کھیل اس نظام کو نظر نہیں آ رہا؟ قومیں بہت پہلے سوچتی ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا لیجئے۔ آگرہ میں پیدا ہونے والے موتی لال نہرو ہندوستان کے نامور وکیل تھے، انہوں نے بڑے شوق سے اپنے بیٹے کو انگلستان سے قانون کی تعلیم دلوائی، موتی لال نہرو نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کی پرورش شہزادوں کی طرح کی، جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان لوٹا تو باپ نے اپنے بیٹے کو الہٰ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے۔ موتی لال نہرو نے دیکھا کہ اس کا بیٹا جواہر لال نہرو کمیونسٹ خیالات کا مالک ہے، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتا ہے، موتی لال نے بیٹے کو بہت سمجھایا، جب دال نہ گلی تو پھر ایک دن موتی لال نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کی الماری سے قیمتی سوٹ، مہنگے جوتے اور سگار نکالے اور لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ 

ساتھ ہی الماری میں کھدر کے تین کرتے، دو پائجامے اور دیسی جوتی رکھوا دی، کمرے سے اعلیٰ فرنیچر اٹھوا کر دری اور موٹی چادر بچھوا دی اور پھر خانساماں کو حکم دیا کہ کل سے صاحبزادے کو جیل جیسا سادہ کھانا دینا شروع کرو، موتی لال نے بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا۔ جواہر لال نہرو شام کو گھر لوٹا تو اس نے اپنے کمرے کا عجیب و غریب حال دیکھا، یہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے والد کے پاس گیا، والد اس وقت ٹالسٹائی کا شہرہ ٔ آفاق ناول وار اینڈ پیس پڑھ رہے تھے۔ جواہر لال نہرو نے اپنے باپ سے پوچھا، آپ مجھ سے خفا ہیں؟ موتی لال نہرو نے کتاب سے نظریں ہٹائیں اور مدھم سی آواز میں جواب دیا ...’’ میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا...‘‘ بیٹے نے پوچھا ،’’تو پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا؟‘‘ والد نے جواب دیا ...’’ بیٹا تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل، بھوک اور خواری ہے، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان چیزوں کے عادی ہو جائو، 

غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ ہوتا نہیں اس لئے اگر تم عام آدمی کی بات کرتے ہو تو تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہئے، تم انگلستان کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر بات کرو گے تو کون اعتبار کرے گا، میں نہیں چاہتا کہ دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے چنانچہ آج سے تم وہی کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے، تم اتنے پیسے ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں...‘‘ جواہر لال نہرو نے والد کی پیشانی چومی اور پھر مرتے دم تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے، کھانا بھی غریبوں جیسا کھایا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں لیڈر شپ اور عوام میں زمین آسمان کا تفاوت ہے اسی لئے حکمراں، عوام کا نہیں سوچتے، انہیں غریب لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔ بقول ڈاکٹر اطہر قسیم صدیقی:

کوئی تو ایسا جواں مرد ہو قبیلے میں
جو روز حشر سے پہلے حساب دے ڈالے

مظہر برلاس

بشکریہ روزنامہ جنگ


Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments